لکھنؤ6مارچ(ایس او نیوز /آئی این ایس انڈیا)یوپی 2017 کے انتخابات میں کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے آخری موقع پر ہوئے معاہدے نے جنگ کو مکمل طورپر سہ رخی بنادیاہے۔ 27 سال یوپی بے حال، شیلا دکشت کو سی ایم امیدوار اور راہل گاندھی کی ’’کسان یاترا‘‘کے بعداچانک راہل۔اکھلیش نے اتحادکرلیا۔ بی جے پی اور بی ایس پی کے ساتھ ہی اتحاد سیاسی جنگ میں آپس میں خوب حملے کیے، ایک دوسرے پر تمام ذاتی حملے بھی ہوئے، زبان کی سطح بھی گرا دیا، خوب جملے بازی ہوئی، بہت کہاوتیں اور نئے ’فل فارم‘ گھڑے گئے۔ خود راہل نے ریاست بھر میں اکیلے 50 ریلیاں کیں، اکھلیش کے ساتھ 4 لائن روڈ شو اور 4 لائن ریلیاں کیں۔سب سے چونکانے والی رہی راہل کی بی ایس پی اور مایاوتی کو لے کر حکمت عملی. پورے انتخابات میں راہل نے پی ایم مودی اور بی جے پی کو ہی نشانہ پررکھا۔ راہل مسلسل مودی حکومت کو جملوں کی حکومت بتاتے رہے اور ان پر2014 میں کئے وعدے پورے نہ کرنے کا الزام لگاتے رہے۔ لیکن راہل نے مایاوتی اور بی ایس پی پر کافی حد تک خاموشی سادھے رکھی۔راہل اوراکھلیش کی پہلی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی مایاوتی کا سوال آیا تو راہل نے کہاکہ میں کانشی رام اور مایاوتی جی کی عزت کرتا ہوں۔ جبکہ اگلے بیٹھے اکھلیش مسلسل مایاوتی پر حملہ آور رہے.۔ اکھلیش مستقبل میں بی جے پی اور بی ایس پی کے ہاتھ ملانے کی بات اپنے کے انداز میں کہتے رہے۔ اکھلیش نے کہاکہ بی جے پی اور بی ایس پی پہلے کی طرح رکشا بندھن منا لیں گے۔ اس کے باوجود اکھلیش کے ساتھ مشترکہ روڈ شو اورمشترکہ ریلی کرنے والے راہل مایا پر نرم ہی نظر آئے۔آگرہ میں اکھلیش کے ساتھ روڈشوکے بعدہوئی ریلی میں راہل نے صرف اتنا ہی کہا کہ بی ایس پی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا،کیونکہ وہ تو جنگ میں ہیں نہیں ہے۔ گویا راہل صرف مایا مخالفت کی خانہ پری کر رہے ہوں۔ اس پرخودپی ایم مودی نے بھی بی جے پی بی ایس پی کے رکشا بندھن کے اکھلیش کے سوال پر راہل کی خاموشی کو ہی ہتھیار بنایا۔آخر راہل کی مایا کو لے کریہ کیسی حکمت عملی تھی؟۔ ذرائع کی مانیں تو راہل مستقبل میں ریاست کے ساتھ ہی ملک کی سیاست کے لحاظ سے اس حکمت عملی پرچلے۔ دراصل سیکولر ازم کے نام پرملک کی سیاست میں بی جے پی کی مخالفت کے معاملے میں بی ایس پی کو ساتھ رکھاجاسکے۔ ساتھ ہی یوپی میں بھی بی جے پی کی مخالفت کے نام پر متبادل کھلے رکھے جاسکیں۔